#اقتباس_از_رفقا_بالقواریر
”کیا جانتے ہو تم سنان آخر محمد ﷺ کے بارے میں ؟“ وہ کانپتی ہوٸی آواز میں اس سے پوچھ رہے تھے اور سنان مہر بہ لب بیٹھا زمین کو گھور رہا تھا ۔
” جس سے لاحاصل نفرت میں تم نے ایک عمر بتا دی سنان وہ تو سراپا محبت ہیں ۔۔۔۔ سراپا محبت !!!!!
تمہیں لگتا ہے وہ غریبوں ، بے کسوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے ؟؟ غلط لگتا ہے تمہیں ! خدا کی قسم ان سے بڑھ کر غریبوں اور بےکسوں کا کوٸی سہارا نہیں تھا !
تمہیں لگتا ہے وہ عورتوں اور بچوں کیلٸے ایک جابر بادشاہ کی طرح تھے ؟؟
غلط ! غلط سوچتے ہو تم سنان ! بالکل غلط سوچ ہے تمہاری !!! ارے وہ تو اس دنیا میں حقوق نسواں کے سب سے بڑے علمبردار تھے ۔ سب سے بڑے علمبردار !!! “ ، بولتے بولتے وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے تھے اور اب ہچکیوں سے رو رہے تھے ۔
”سنان ۔۔۔۔۔ تم نے کیوں کبھی سچ جاننے کی کوشش نہیں کری ؟؟! ۔۔۔۔ بیٹے تم نے شکستہ آٸینوں میں سے انکی شخصیت کیوں دیکھی ؟؟ وہ آئینے جنکے ذاتی عیب نے ان ﷺ کی شخصیت کو تمہاری نظر میں مسخ کردیا ! تم سنان ۔۔۔۔ تم جن سے نفرت کرتے ہو انکی حقیقت جانی ہوتی تو اپنا تن من دھن سب ان پر قربان کرنے کو تیار ہوجاتے ۔ اور آج تمہارا یہ لہجہ نہ ہوتا!! ۔۔۔۔۔
پر تم پر کیا افسوس کروں سنان ، میں تو خود کو رو رہا ہوں ۔ جب سے تمہارا ماضی جانا ہے میرا ہر دن کٹہرے میں گزرتا ہے۔
تمہیں پتہ ہے ہم سارے مٶمن ایک دوسرے کا آٸینہ ہیں سنان!
لیکن ہم سے اکثر اپنی ذات میں اتنے شکستہ ہوچکے ہیں کہ اب ہم میں سے جھانک کر دیکھنے والے کو ہر وہ منظر مسخ ہوا نظر آتا ہے جسے ہم رفلیکٹ کر رہے ہوتے ہیں ۔ تمہارا باپ بھی وہ شکستہ آٸینہ تھا کہ جس کے شکستہ پن میں تم نے ان میں سے جھلکنے والے عکس کو دیکھا تو تمہیں ایک بھیاک منظر نامہ دکھاٸی دیا ۔ اور افسوس تم نے آٸینے کی شکستگی پر غور کیے بغیر اس سے جھلکتے منظر کو سچ مان لیا۔
تمہاری برابر کی غلطی تھی سنان ! لیکن مجھے تب سے خوف آرہا ہے کہ تم جیسے نا جانے کتنے اور بھی ہونگے ۔۔۔۔ جو مجھ سے بھی زندگی کے کسی نا کسی موڑ پر ٹکراٸے ہونگے اور میرے کسی عمل کے شکستہ آٸینے میں نظر آتے غلط عکس کو انہوں نے بھی حقیقت مان لیا ہوگا ۔ آااہ سنان ۔۔۔۔۔۔۔ بحیثیت مسلمان میری کتنی بڑی ذمہ داری تھی جس سے میں غافل رہا ۔ بلکہ ہم میں اکثریت غافل ہے !“ وہ روتے وہ ہوٸے بولے جا رہے تھے اور سنان گنگ بیٹھا تھا ۔
” بیٹا میں تمہیں کیسے انکا تعارف کرواٶں؟ ان ﷺ کی ذات اقدس سے متنفر ایک بندے کو کیسے انکی محبت کی طرف بلاٶں بیٹا ؟؟؟ میں تو خود تقصیرات کا مجموعہ ہو ! محبت کے معانی و مطالب نے نا آگاہ ہوں ۔ میں نے تو خود آج تک زبانی جمع خرچ کے سوا ان سے محبت کا کوٸی عملی ثبوت نہیں دیا !!“ انکا پورا وجود زلزلوں کی زد میں تھا اور الفاظ ساتھ چھوڑ رہے تھے ۔
”لیکن اللہ نے مجھے تمہاری ذمہ داری سونپی ہے اور میں یہ فرض ہر صورت نبھانا چاہتا ہوں!!“ ۔ ان کی ہمت نہیں ہو رہی تھی آج کہ وہ رحمة للعالمین ﷺ کی ذات گرامی پر گفتگو کریں ۔ بھلا کہاں سے لاتے لہو کو گرما دینے والے الفاظ ؟؟
کیسے پیدا ہوتا جذبوں میں تلاطم پیدا کر دینے والا لہجہ ؟؟ جب انکی نظر میں خود انکے عمل میں ہی اتنی تقصیر تھی ؟؟
مگر انہیں کوشش تو کرنی ہی تھی ۔
خاموشی کا وقفہ لمبا ہوٸے جا رہا تھا ۔ فراز صاحب بولنے کیلٸے مناسب الفاظ ڈھونڈ رہے تھے اور سنان ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ماحول میں اترتے وقار اور ہیبت کو محسوس کرتے خود میں بولنے کا حوصلہ نہیں پا رہا تھا ۔
ایسے میں اللہ نے انکی مدد فرماٸی اور انہیں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا ملفوظ یاد آگیا ۔ حضرت فرماتے ہیں کہ جب مجھے اپنے کسی عمل میں کوتاہی یا نقص معلوم ہوتا ہے تو میں لوگوں کو اسی چیز کی بکثرت دعوت دینے لگتا ہوں ۔ ایسا کرنے سے جب ضمیر کی مار پڑتی ہے(کہ اوروں کو نصیحت اور خود فضیحت) تو خود بخود عمل میں درستگی پیدا ہوجاتی ہے ۔
آخر فراز صاحب گویا ہوٸے ۔۔۔ ” قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں ” وَ مَا أَرسَلنَاکَ إِلَّا رَحمَةً لِّلعَالَمِینَ“ اللہ تعالی نے آپ علیہ الصلاة والسلام کی ذات گرامی کو سارے جہانوں کیلٸے باعث رحمت بنا کر مبعوث کیا ہے ۔ پھر خود ملک الملوک نے آپ ﷺ کے اخلاق کے بہترین ہونے کی گواہی اپنی مقدس کتاب میں دی ”وَ إِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیمٍ“ ۔۔۔۔۔بیشک آپ اخلاق کے اعلی مرتبے پر فاٸز ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بھلا اللہ سے زیادہ سچی بات کس کی ہو سکتی ہے (ومَن اَصدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیثاً) ؟؟؟
تم نے اسلام کو اور پیغمبر اسلام ﷺ کو مسلمانوں کے شکستہ آٸینوں میں پرکھا سنان ۔ اور نتیجتا ہماری کوتاہ عملیوں کی بدولت تم نے اسلام کی ایک مسخ شدہ تصویر دیکھی ۔
تم اگر اسلام کو پیغمبر اسلام ﷺ اور آپ کے تربیت یافتہ اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شخصیت کے آٸینے میں پرکھتے تو تمہیں دنیا میں اس بہتر اور مکمل منظر کہیں نظر نہ آتا ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بات چھوڑوں سنان تم ایک عورت کے الفاظ سنو ۔۔۔ وہ عورت جس نے شب و روز آپ علیہ السلام کے ساتھ بتاٸے ، آپکے کردار و اخلاق کے باریک ترین پہلوٶں کو بھی دیکھا ، بحیثیت بیوی آپکے گھر والوں کے ساتھ معاملے کو بھی پرکھا پھر جب آپ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوٸی تو تسلی کیلٸے ایسی گواہی دی جو آج بھی حرف بحرف محفوظ ہے ۔۔۔۔بخاری شریف کی تیسری حدیث میں مذکور ہے کہ پہلی وحی ”إقرأ“ کے بعد آپ ﷺ گھبراٸے ہوٸے گھر میں داخل ہوٸے تو غمگسار و مہربان بیوی نے ان الفاظ میں آپ ﷺ کو تسلی دی کہ ۔۔۔۔۔۔ { اللہ کی قسم ، اللہ آپ کو ہرگز بھی رسوا نہیں کریگا ۔ بیشک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، اور دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، غریبوں کیلٸے کماتے ہیں (یعنی اپنی کماٸی سے انکو فاٸدہ دیتے ہیں) اور مہمان کی ضیافت فرماتے ہیں اور حق کے معاملوں کی حمایت فرماتے ہیں } ذرا غور کرو سنان ۔۔۔۔ انکی بیوی نے انہیں تسلی دینے کیلٸے کسی اور کے سہارے یا ساتھ کی بات نہیں کری ۔ بلکہ انکے اپنے اچھے کردار کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ، کہ ان اخلاق کے ساتھ اللہ آپکو ضاٸع نہیں کرے گا !!
کیا تمہیں لگتا ہے اماں خدیجہ ایسی صورتحال میں ان الفاظ سے انکی دل جوٸی کرتیں اگر یہ سب جھوٹ ہوتا ؟ کبھی نہیں !! کیونکہ ایک مخلص انسان دلجوٸی بھی اس چیز سے کریگا جس پر سامنے والے کو بھی یقین ہو تاکہ اس یقین کی بدولت اسکے دل کو قرار حاصل ہو ۔
سوچو سنان سوچو ! اگر ان الفاظ کی کوٸی حقیقت نہ ہوتی تو کیاں اماں رضی اللہ عنہا اتنے یقین سے یہ سب بولتیں ؟ اگر یہ سچ نہ ہوتا تو اس حدیث کو آگے روایت کرنے والے ایک جھوٹی بات کو اتنے دھڑلے سے آگے نقل کرتے ؟؟ “ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بولے جا رہے تھے اور ایک ایک لفظ سیدھا سنان کے دل میں ترازو ہو رہا تھا ۔
” اور سنو سنان ! وہ غریبوں ، بے کسوں کیلٸے قاہر تھے ؟؟ سنو ! جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی گواہی سنو ، جو انہوں نےحبشہ کے بادشاہ نجاشی کے سامنے دی تھی کہ { اے بادشاہ ! ہم ایک گمراہ قوم تھے ۔ پتھروں کو پوجتے تھے ۔ مردار جانوروں کا گوشت کھاتے تھے ، بے حیاٸی کے کام کرتے تھے ۔ رشتے داروں کے حقوق غصب کرتے تھے ۔ پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے ۔ ہمارا ہر طاقتور آدمی کمزور کو دبا لیتا تھا ۔ یہ تھی ہماری حالت ۔ پھر اللہ تعالی نے ہم میں اسی طرح ایک رسول بھیجا جیسا کہ ہم سے پہلے لوگوں میں رسول بھیجے جاتے رہے ہیں ۔ یہ رسول ہم ہی میں سے ہیں ۔ ہم انکا حسب نسب ، انکی سچاٸی و پاکدامنی اچھی طرح جانتے ہیں ۔ انہوں نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا کہ ہم اسے ایک جانیں ۔ اسکی عبادت کریں اور الله کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آرہے ہیں ، ہم انہیں چھوڑ دیں ۔ انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ تعالی کی عبادت کریں ۔ نماز پڑھیں ، زکاة دیں ، روزے رکھیں ۔
انہوں نے ہمیں سچ بولنے ، امانت پوری کرنے ، رشتے داروں کی خبرگیری کرنے ، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنے ، براٸیوں اور خون بہانے سے بچنے اور بدکاری سے دور رہنے کاحکم دیا ۔ اسی طرح فحش باتیں کرنے ، یتیموں کا مال کھانے ، اور گھروں میں بیٹھنے والی (پاکیزہ) عورتوں پر تہمت لگانے سے منع فرمایا } .
غور کرو سنان ۔۔۔ ایک عیساٸی بادشاہ کے سامنے بھرے دربار میں ایسی بے باک گواہی دینے پر بھلا کس چیز نے انہیں ابھارا تھا ؟؟ اگر آپ ﷺ کا قول انکے فعل کے مطابق نہیں تھا تو بھلا کیوں دی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے انکے کردار کی گواہی ؟؟
تم کہو گے کہ وہ مسلمان تھے اسلٸے ساٸیڈ لی ، تو کتابیں کھولو اور پڑھو ، ابو سفیان نے قیصر روم ہرقل کے دربار میں کس طرح آپﷺ کے کردار و اخلاق کی گواہی دی ، جبکہ وہ اس وقت مسلمان بھی نہیں تھے ۔ ۔۔۔۔۔۔ یہ آپ ﷺ کی اخلاقی مضبوطی کی علامت تھی کہ دشمن بھی سچ بولنے پر مجبور تھا ۔ ۔۔۔۔۔
تمارے والد نے جو بھی کیا سنان ، وہ اسلام کی تعلیمات نہیں انکا ذاتی فعل تھا ۔ جو اسلامی تعلیمات کے بالکل مخالف ہے ۔
میرے نبی ﷺ تو بار بار تاکید کرتے تھے کہ لوگوں اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ! ۔۔۔۔ لوگوں تم میں بہترین وہ ہےجو اپنے گھر والوں کیلٸے بہترین ہے اور میں تم سب میں اپنے گھر والوں کیلٸے سب سے بہترین ہوں ۔ آپ ﷺ نبوت کے فراٸض انجام دیتے ہوٸے بھی کبھی اپنے گھر والوں سے غافل ہوٸے نا انکے حق میں کمی کی ۔۔۔۔۔۔ کتابیں بھری پڑی ہیں آپ ﷺ کی سیرت حسنہ کی گواہیوں سے ۔۔۔۔۔۔ کبھی کھول کے خود پڑھو سنان ۔۔۔۔۔ جانو اپنے محسن کو ، محسن انسانیت ﷺ کو ۔ میں نے تمہارے سامنے نمونے کے طور پر جو چند باتیں ذکر کری ہیں یہ سمندر میں قطرے کے برابر بھی نہیں ۔ اگر تم ان پر یقین کرتے ہو تو اب آگے کی منزلیں تمہیں اپنی جستجو کی بدولت طے کرنی ہونگی ۔ مقدور بھر مدد کیلٸے میں بھی ہر دم حاضر ہوں ۔۔۔۔۔
مگر میری ایک بات یاد رکھنا سنان ۔۔۔۔۔ کبھی بھی کسی مسلمان کے غلط طرز عمل سے اسلام کو جج مت کرنا ۔ اسلام مسلمان بناتا ہے ۔۔۔ مسلمان اسلام نہیں بناتے ! بس اتنا جان لو کہ اسلام میں کہیں کوٸی نقص نہیں ہے جو بھی خرابی ہے وہ ہم مسلمانوں میں ہے ۔ لہذا آٸیندہ کبھی کسی مسلمان کو دیکھ کر اسلام کے بارے میں کوٸی غلط راٸے قاٸم کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا بیٹا ۔۔۔۔
ہدایت بہت قیمتی چیز ہے ۔ اور ضروری نہیں کہ ہر بار ہی آپ خوش نصیب ٹھہرو “ ۔۔۔۔۔
آنسوٶں کے سنگ وہ اپنی بات مکمل کر کے خاموش ہوٸے تو سامنے بیٹھا وہ پتھر ٹوٹ چکا تھا ۔ اور اس میں سے ہدایت کا ابتداٸی چشمہ پھوٹ پڑا تھا ۔
وہ رو رہا تھا ۔۔۔۔ اور بہت بری طرح رو رہا تھا ۔ یوں جیسے غیر متوقع طور پر کسی اندھے کی بیناٸی لوٹ آٸے اور اسے پتہ چلے کہ اگلے قدم پر تو کھاٸی تھی جس سے وہ بال بال بچا ہے ۔
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
طرب آشنائے خروش ہو، تو نواٸے محرم گوش ہو
وہ سرور کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردہ ساز میں
تو بچا بچا کہ نہ رکھ سے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن
نہ تری حکایت سوز میں، نہ میری حدیث گداز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
(شعر میں مذکور آٸینے سے مراد دل کا آٸینہ ہے ۔ اوپر مذکور بات میں اور اسمیں کوٸی تصادم نہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از خولہ خالد
#Quran #Rasool #Muhabbat #NovelLover #UrduNovel #RifqanBilQawareer #KholaKhalidNovels.
No comments:
Post a Comment